سپریم کورٹ نے نظر ثانی درخواستیں منظورکرلیں، پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ کالعدم 58

سپریم کورٹ نےنظر ثانی درخواستیں منظورکرلیں پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینےکا فیصلہ کالعدم

سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستیں منظور کرلیں اور پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کا حکم کالعدم قرار دے دیا۔

سپریم کورٹ میں آج مخصوص نشستوں کے کیس میں اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوئے اور ان دلائل کے ساتھ ہی نظر ثانی کیس کی سماعت مکمل ہوئی۔

اس موقع پر جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ کچھ دیر میں مختصر فیصلہ سنایا جائے گا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے مختصر فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ نے 5 کے مقابلے میں 7 کی اکثریت سے نظر ثانی درخواستیں منظور کرلیں اور پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا اور پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کا حکم کالعدم قرار دے دیا۔

مخصوص نشستیں ن لیگ، پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کو ملیں گی۔

7 ججز نے اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ سنایا جن میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اخترافغان، جسٹس شاہد بلال، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس عامرفاروق اور جسٹس علی باقر نجفی شامل ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس صلاح الدین پنہور نے بینچ سے علیحدگی اختیار کی جبکہ جسٹس عائشہ ملک،جسٹس عقیل عباسی نے ابتدائی سماعت میں ہی ریویو درخواستیں خارج کر دی تھیں۔

جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس محمد علی مظہر نے مشروط نظر ثانی منظور کی جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے 39 نشستوں کی حد تک اپنے رائے برقرار رکھنے کا فیصلہ دیا۔

 جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے اقلیتی فیصلے میں کہا کہ الیکشن کمیشن ریکارڑ دیکھ کر طے کرے کس کی کتنی مخصوص نشستیں بنتی ہیں۔

آئینی بینچ کا مختصر فیصلہ جاری

آئینی بینچ نے مخصوص نشستیں نظرثانی منظور کرنے کا مختصر فیصلہ جاری کردیا جس پر 12 رکنی بینچ میں سے 10 ججز کے دستخط موجود ہیں۔

مختصر تحریری فیصلہ چار صحفات پرمشتمل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نظرثانی بینچ 13 ججز پرمشتمل تھا، دو ججز جسٹس عائشہ ملک اورجسٹس عقیل عباسی نے پہلے دن ہی ان درخواستوں کو مسترد کیا جبکہ جسٹس صلاح الدین پنہورنے بینچ سے علیحدگی اختیارکی۔

مختصرفیصلے کے مطابق سات ججزکی اکثریت کے ساتھ نظرثانی درخواستیں منظورکی گئیں، تمام سول نظرثانی درخواستیں منظور کی جاتی ہیں اور 12 جولائی2024 کا اکثریتی فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ بحال کردیا گیا۔

آئینی بینچ نے مختصرفیصلے میں کہا کہ  جسٹس جمال خان مندوخیل نے41 نشستوں پرنظرثانی کا فیصلہ دیا تھا، جسٹس جمال مندوخیل کا 39 نشستوں پر پرانا حکم برقرار ہے۔

مختصرفیصلے کے مطابق جسٹس محمد علی مظہراورجسٹس حسن اظہررضوی کی الیکشن کمیشن کوازسرنو جائزہ لینے کی ہدایت کی تھی، دونوں ججزنے الیکشن کمیشن کو80 امیدواروں کی نامزدگی کا ازسرنوجائزہ لینے  اور 15 دن میں فیصلہ کرنے کی ہدایت کی۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواستوں پر آج 17ویں سماعت تھی، سپریم کورٹ کے 13 رکنی فل کورٹ نے 12 جولائی 2024 کو 8 ججز کی اکثریت سے نشستیں پی ٹی آئی کو دیں۔

سپریم کورٹ میں جولائی 2024 میں مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور اگست میں الیکشن کمیشن نے نظر ثانی درخواستیں دائر کیں۔ سپریم کورٹ کے 13 رکنی آئینی بینچ میں 6 مئی کو نظرثانی درخواستیں مقرر کیں۔

آئینی بینچ سے جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی 6 مئی کو درخواستیں مسترد کر کے الگ ہوئے جبکہ 17ویں سماعت پر جسٹس صلاح الدین پنہور نے کیس سننے سے معذرت کی۔

الیکشن کمیشن، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اپنی تحریری معروضات بھی جمع کرائیں

سنی اتحاد کونسل کی جانب سے فیصل صدیقی، حامد خان نے دلائل دیے اور پی ٹی آئی کی جانب سے سلمان اکرم راجا پیش ہوئے۔

واضح رہے کہ 14 مارچ 2024 کو پشاور ہائیکورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی درخواستیں خارج کردیں تھیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں